سب سے بہترین دعا کون سی ہےسب سے بہترین دعا کون سی ہے

دستِ اقدس پر بیعت بھی کرتے رہے، اس سلسلہ کی ایک بیعت سن ۱۳ہجری میں منعقد ہوئی، جسے ’’بیعتِ عقبہ ثانیہ ‘‘کہاجاتاہے، اس سال حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے مسلمانوں کا ایک قافلہ لے کر حج کے لیے مکہ آئے، جن میں تقریباً پچھتر افراد تھے ، ان

حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس منیٰ کی گھاٹی میں تشریف لے گئے ، اس دوران حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ انصار کے اس قافلے سے مخاطب ہوکر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت فرمایاتھا کہ: ’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی قوم میں نہایت عزت اور وقعت والے ہیں ، اور ہم ان کے حامی اور مددگار ہیں ، اور وہ تمہارے

یہاں (مدینہ) آنا چاہتے ہیں ، اگر تم ان کی پوری پوری حمایت اور حفاظت کرسکواور مرتے دم تک اس پر قائم رہو تو بہتر ہے ،ورنہ ابھی سے صاف جواب دے دو۔‘‘ (سیرۃ المصطفیٰ، انصار کی دوسری بیعت،ج:۱، ص:۳۴۱،۳۴۲، ط:الطاف اینڈ سنز)پھر انصار کی یہ جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام ہوئی ، اور باہمی عہد وپیمان باندھے گئے اور آخر میں بیعت کی گئی۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اعلانیہ طورپرفتح مکہ سے کچھ قبل اسلام کا اظہار

فرمایا۔ادب کا لحاظ رکھناحضرت عباس رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت ہی محبت اور والہانہ تعلق تھا،اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑاہی ادب کیاکرتے تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ چونکہ عمر میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال بڑے تھے، لیکن عمر کے اس تفاوت کو کبھی اس انداز میں بیان نہیں کرتے تھے، جس سے ظاہری طورپر بھی کسی قسم کی بے ادبی کا اندیشہ ہو۔ جواب دینے کا انداز ہی نرالااور کمالِ ادب

پر مبنی ہوتا تھا، اگر کوئی شخص ان سے سوال کرتاکہ: ’’أَیُّمَا أَکْبَرُ أَنْتَ أَمِ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟‘‘ اس سوال کا آسان جواب تویہ تھا کہ فرماتے : ’’میں عمر میں بڑاہوں۔‘‘لیکن بجائے اس جواب کے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے جواب کا اندازیہ ہوتاتھاکہ:’’ہُوَ أَکْبَرُ مِنِّي، وَأَنَا وُلِدْتُ قَبْلَہٗ‘‘ بڑے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں،ہاں! پیدا پہلے میں ہواتھا،یعنی میری پیدائش پہلے کی ہے، باقی بڑے تو رسولِ کریم صلی

اللہ علیہ وسلم ہیں۔ دیکھیے! کس قدر مؤدبانہ اندازِ گفتگو اور جواب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ ایک نمونہ ہے۔ ظاہری گفتگو میں بھی آداب اور محبت کا کس قدر لحاظ فرمایا کرتے تھے، رضي اللّٰہ عنہم أجمعین۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مقام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بڑااحترام فرماتے تھے، اور لوگوں کو بھی ا ن کے اکرام وتعظیم کا

حکم دیتے تھے۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکوہ کیاکہ یارسول اللہ!بعض لوگ آپس میں تو بڑی بشاشت کے ساتھ ملتے ہیں اور جب ہم سے آمنا سامنا ہوتاہے تو وہ بشاشت ان کے چہروں پر باقی نہیں ہوتی، ہم سے ملاقات کے وقت ان کے چہروں سے مسکراہٹ ختم ہوجاتی ہے،یعنی ہم سے اس طرح کا سلوک کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ

علیہ وسلم کا چہرۂ انور سرخ ہوگیا اور پھر ارشاد فرمایا: ’’ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لاَ یَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِیْمَانُ حَتّٰی یُحِبَّکُمْ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’ اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کسی شخص کے دل میں ایمان اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا، جب تک وہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول کے لیے محبوب نہ رکھے۔‘‘ یعنی جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اہلِ بیت کی عظمت موجود نہ ہو، اس دل میں ایمان داخل نہیں

ہوسکتا۔ نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ مَنْ آذٰی عَمِّيْ فَقَدْ آذَانِيْ فَإِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیْہِ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے لوگو! جس نے میرے چچا کو تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی،اس لیے کہ کسی بھی شخص کا چچا باپ کی مانند ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی، مناقب ابی الفضل عم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو العباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ، ج:۲، ص:۲۱۷، ط: قدیمی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مقامصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی عظمت کے معترف تھے اور ان کی خوب قدر وعزت فرمایا کرتے تھے۔ امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا مانگا کرتے تھے،بخاری شر

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.