حضرت علی ؑو حضرت فاطمہؑ کی شادی کیسے ہوئی؟

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب عہد طفولیت سے سن بلوغت کو پہنچیں تو اکابرین قریش کی طرف سے نکاح کے پیغام آنا شروع ہو گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی کی طرف توجہ نہیں فرماتے تھے۔ ایک روز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کا اظہار فرمایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کا اختیار قبضۂ قدرت میں ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہوآلہ وسلم نے ان کو بھی اسی طرح کا جواب دیا

ایک دنحضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں تشریف فرما تھے اور حضرت فاطمہ کے بارے میں گفتگو فرما رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اکابرین قریش کی طرف سے حضرت فاطمہ کے لیے بھیجا جانے والا نکاح کا پیغام کسی کے لیے بھی قبول نہیں ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابھی تک پیغام نہیں دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ حضرت علی کے سامنے رکاوٹ صرف مال کی کمی ہے۔خدا اور اس کا رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم)ان کا نکاح حضرت فاطمہ کے ساتھ کرنے پر راضی ہیں۔ اس کے بعد حضرت صدیق اکبر نے حضرت عمر فاروق اور حضرت سعد بن معاذ سے کہا کہ آؤ ہم حضرت علی سے ملیں اور ان کو حضرت فاطمہ کے ساتھ نکاح کا پیغام دینے کی ترغیب دیں۔ چنانچہ یہ تینوں اصحاب مل کر حضرت علی کے پاس پہنچے ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا : ” اے علی! کوئی نیکی ایسی نہیں جس میں آپ سبقت نہ لے جاتے ہوں اور پھر آپ کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ایسا مقام و مرتبہہے کہ کسی دوسرے شخص کا اس میں شریک و دخل نہیں۔ آپ حضرت فاطمہ کے لیے نکاح کا پیغام دیں

” چنانچہ ان کے ترغیب دلانے پر حضرت علی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو پاس بٹھا لیا۔ حضرت علی سر جھکائے زمین کو دیکھے جا رہے تھے، جس طرح کہ کوئی شخص ضرورت مند ہو مگر شرم کی وجہ سے اپنی حاجت بیان نہ کر سکتا ہو۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” اے علی! میرا خیال ہے کہ تم کسی چیز کے خواہش مند ہو مگر اسے بیان کرنے میں شرم محسوس کر رہے ہو۔ جو کچھ تمہارے دل میں ہے کہہ دو اور شرم مت کرو، تمہاری خواہش پوری ہوگی …! “اس پر حضرت علی نے اپنا مدعا بیان فرمایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا : ” اے علی! گھریلو ضروریات کی کوئی چیز تمہارے پاس ہے جسے تم وسیلہ بناؤ …؟ ” حضرت علی نے فرمایا : ” میرے پاس ایک تلوار، ایک اونٹ، اور ایک زرہ ہے۔

” حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : ” تلوار کی تمہیں ضرورت ہے، ہر وقت جہاد کے لیے تیار رہتے ہو، اور اونٹ تمہاری سواری کے لیے ہے، وہ بھی ضروری ہے، میں تیری طرف سے زرہ پر اکتفا کرتا ہوں۔ اور اے علی! تجھے بشارت ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تیرا اور فاطمہ کا نکاح آسمان میں باندھ دیا ہے ۔ ” اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مجلس میں مسجد میں حضرت علی کا نکاح حضرت فاطمہ سے کر دیا۔حضرت فاطمہ کا حق مہر ڈھال مقرر ہوا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے گھر تشریف لے گئے اور نکاح کا اعلان فرمایا، تو پھر حضرتعلی سے فرمایا کہ : ” اپنی یہ ڈھال لے جا کر فروخت کر دو اور اس کی قیمت لے آؤ ۔” حضرت علی نے یہ ڈھال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ چار سو درہم میں فروخت کر دی۔ جب انہوں نے ڈھال حضرت عثمان کے حوالے کر دی اور قیمت وصول کر لی تو حضرت عثمان نے فرمایا : ” اے علی! آپ اس ڈھال کے زیادہ حق دار ہیں۔ یہ ڈھال میں آپ ہی کو ہبہ کرتا ہوں ۔ ” حضرت علی نے حضرت عثمان کا شکریہ ادا کیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں ڈھال اور درہم لے جا کر پیش کر دیے اور ساتھ ہی تمام واقعہ بھی بیان کر دیا ۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمان غنی کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ پھر ان درہم میں سے مٹھی بھر درہم حضرت ابوبکر صدیق کو ضروریات خانہ داری خریدنے کے لیے دیے، اور حضرت سلمان اور حضرت بلال کو ان کے ساتھ کر دیا تاکہ اگر زیادہ وزن بن جائے تو اٹھا کر لے آئیں۔ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں کہ : ” جب ہم باہر نکلے اور گنتی کی تو یہ تین سو ساٹھ درہم تھے۔ ان تمام سے میں نے حضرت فاطمہ کے لیے سامان خریدا۔ ایک مصری گدیلہ جو کہ پشم سے بھرا ہوا تھا، ایک چمڑے کا گدیلہ جس میں کھجور کے پتے تھے، ایک پردہ عباء خیبری، اور چند مٹی کے برتن تھے۔ یہ تمام سامان ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں لائے۔ حضور ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو آپ کی آنکھیں نم آلود ہو گئیں اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اور یہ دعا فرمائی، اے اللہ! اس قوم پر برکت نازل فرما جس کے بہترین برتن مٹی کے ہیں ۔

“جب حضر فاطمہ کی رخصتی کا وقت آیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس تمام ازواج مطہرات جمع تھیں۔ انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ حسرت آمیز باتیں شروع کر دیں۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تذکرہ کیا اور فرمانے لگیں کہ : ” خدیجہ اگر آج زندہ ہوتیں تو فاطمہ کے متعلق ہمیں کوئی پریشانی نہ ہوتی اور ہماری آنکھیں روشن ہوتیں … ! ” یہ سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا : ” خدیجہ جیسا کوئی بھی نہیں ہے۔ اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب سب نے تکذیب کی۔ اپنے سارے مال کو مجھ پر خرچ کر دیا، اللہ تعالیٰ کے دین کو قبول کیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زندگی میں ہی اسے جنت کی بشارت دی ۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.