سائنسدان قرآن کو جھوٹا کرنے نکلےنعوذ باللہ مگر ترکی میں سچا معجزہ دیکھ کر سائنسدان بھی حیران رہ گئے

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے جن قوموں  کا تذکرہ کیا ہے ان کے آثار آج بھی دنیا میں موجود ہیں ان قوموں کو اللہ نےان کی نافرمانی رسولوں اور نبیوں اور ان کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردینے پر سخت سزائیں سنائی  اور قرآن ہم مسلمانوں کی عبرت و رہنمائی کے لیے ان کا تذکرہ کرتا ہے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بھی ایسی قوم تھی حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ کے افراد ایک خاندان اور اللہ تعالی کے حکم سے تیار کی گئی کشتی میں سوار جانوروں کے علاوہ ہر شے اس سیلاب عظیم میں غرد کر دی گئی تھی

کشتی پر آٹھ افراد سوارتھے باقی تمام مختلف اقسام کے جانوروں کے جوڑے تھے حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ تمام آسمانی کتابوں تورات زبور اور انجیل میں بھی ملتا ہے عیسائی مبلغین اور سائنسدانوں کی ایک تحقیقاتی ٹیم میں کئی ماہ پر مشتمل اپنی رسیف کا اعلان کرتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی تاریخی کشتی کو تلاش کر لیا ہے یہ کشتی  مصر کی ترکی میں واقع کوہ رہرات میں ملی ہے

جس کی چوٹی کی بلندی بارہ ہزار فٹ ہے ماہرین کی ٹیم کا کہنا تھا کہ اس کشتی کی تین منزلیں ہیں یہ کشتی کئی میٹر برف کے نیچے دبی ہوئی ہے گزشتہ دوسو  برسوں سے ایک درجن سے زیادہ ٹینز حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کو تلاش کر رہی ہیں جس کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے وہ ایک چوٹی سے ٹکرا کر رک گئی چین کے ماہرین کی اس رپورٹ کو امریکی سائنسدانوں نے ماننے سے انکار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کشتی کی لکڑی کے نمونے جو فرانزک رپورٹ کے لیے بھیجے گئے تھے اتنے پرانے نہیں ہیں کہ  اس کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور کی کشتی ہے

جبکہ چائنیز ایس ریسرچرز کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ وہ 99 پرسنٹ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہی کشتی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام نے لگ بھگ 48 سو برس پہلے اللہ کے حکم سے بنائی تھی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کشتی کی تین منزلیں ہیں اور اس میں کئی بڑے بڑے ہول نما کمرے ہیں ان کمروں میں لکڑی کے ستوں ہیں عرب اخبارات نے بھی زمین میں سوال اٹھائے تھے کیا یہ واقع تن حضرت نوح کی کشتی چینی اور ترکسای ماہرین نے اپنی تحقیق کے لیے قرآن کریم کی آیات کا بھی مطالعہ کیا تھا

جس میں کشتی کے سفر کو بیان کیا گیا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ کشتی کے ٹھہرنے کے جس مقام کی نشاندہی کی گئی ہے وہ سائنسدانوں کے کوہ عرارت کی طرف لے جاتی ہے گزشتہ 20 برسوں میں کئی سیاستدانوں نے وہ کوہ عرارات کا دورہ کیا ہے ان میں سے کچھ ایک نے پہاڑی پر بنی کشتی کی شکل کی چٹان ہی کو حضرت نوح کی کشتی قرار دے دیا لیکن چینی اور ترک ماہرین نے پہاڑ کے اس برفیلے مقام پر تحقیقات کی جہاں درجہ حرارت منفی ساٹھ ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے

پہاڑ کے جس حصے میں کشتی کی باقیات دریافت ہوئی ہیں وہ انتہائ ڈراہونی اور خطرناک ہے ایران رپورٹ کے مطابق اس ٹیم نے ساٹھ محتلف مقامات سے حضرت نوح کی کشتی کا مشاہدہ کیا یہ کشتی کی جگوں سے ٹوٹی ہوئی تھی تاہم مکمل تباہہ اس لیے نہیں ہوئی کہ یہ برف کی موٹی تہہ میں دبی ہوئی ہے لیکن کشتی ٹوٹی ہوئی ہونے کی وجہ سے ماہرین اس کے اندر داخل نہ ہو پائے چینی ماہرین نے ایک پروفیسر منتخب کرکے اپنی تحقیقات سے دنیا کو آگاہ کیا تھا

کشتی کا معائنہ کرنے والے چینی ماہر کا کہنا تھا کہ کشتی کا ہر کمرہ پانچ میٹر اونچا اس میں کوئی بھی جانور آسانی سے سماہ سکتا تھا چائنیس اکسپرٹ نے ریڈیو کاربن ڈیٹکنولجی سےکشتی کے ٹکڑوں کا مشاہدہ کیا جائے 48سو برس پرانی ہے کشتی میں کئ صندوق بھی ملے ہیں لیکن ماہرین اسے کھول نہ پاۓ ماہرین نے ایک مرتبہ پھر جدید آلات ہے اکثر مشین کے ذریعے کوئی رات تفصیلی دورہ کرنے والے ہیں تاکہ تمام رازوں سے پردہ ہٹانے کے لیے ایک ہٹانے کے علاوہ امریکی سائنسدانوں کے سوالات کے جوابات دیے جاسکیں

حضرت نوح کی کشتی کے ذریعے کا دعویٰ نہیں ہے دوسرے جنگ عظیم میں برطانوی فوجی لڑائی میں حصہ لینے کے لیے رک گیا تھا یونانی کو تاریخ میں تاریخ اور آثار قدیمہ میں کافی دلچسپی تھی اسی لیے اس نے علاقے بازاروں سے مختلف آثار قدیمہ کی اشیاء خریدنا اور جمع کرنا شروع کی جب وہ چل بسا تو اس کے لئے سائنس میٹرک کس حصے میں یہ شیعی اس نے یہ چیزیں برطانوی کے ملزم کے حوالے کر یم سے وابستہ ماہرین آثار قدیمہ اور فزیکل کا معائنہ کیا اور اس میں ایک ایک تختی بھی تھیں جن پر آثار قدیم جن پر قدیم زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا

مٹی سخت مٹی سے بنی ہوئی سختی پر لکھی امارات کا جب انہوں نے ترجمہ کیا تو وہ حیران رہ گئے تکمیل پر درج تھا جب انسانوں کے گناہ پر گئے تو تو خدا ان سے ناراض ہو گیا پھر اس نے گناہ گاروں کو پانی میں بونے کا فیصلہ کیا تھا فرشتوں نے وعدہ کیا تھا اور اس رات میں عبادت ایک نیا انسانی نوحہ تک خدا کا ایک پیغام پہنچایا کہ وہ ایک اختیار کریں اور اس میں نیک لوگوں کے علاوہ تمام جانوروں کا ایک ایک جوڑا بھی سوار کرلیں اس تقریب میں کشتی کو اتنا بتایا گیا تھا کہ وہ ایک فٹ بال ٹیم کے برابر تھی ماہرین نے اندازہ لگایا کہ چار ہزار برس پرانی ہے جانی حضرت عیسی کے پہلے کی ہے اس طرح تو نور کا ایک ٹھوس ثبوت ان کے ہاتھ لگ چکا تھا

عام طور پر مذہب خصوصا اسلام کے منفرد ہوا تو افغانی قرار دیتے ہیں یہ تمام ثبوت ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں اس خطے میں لکھا ہے نوکی کشتی آج کل کی کشتیوں کی طرح لمبی نہیں بلکہ بیضوی یعنی انڈا نما تھی اس زمانے میں دجلا اور فرات میں اسی طرز کی کشتیاں چلا کرتی تھی کشتی کے ٹہرنے کے مقام کے بارے میں قرآن مجید کی سورہ ہود کی آیت نمبر 44 میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک بلند مقام یعنی جودی پر جا رکی تھی عراق اور شام کے قدیم باشندے بابل کے دور میں یہ سمجھتے تھے کہ کشتی کوہ کُرد پر ٹھہری تھی یہ مشہور پہاڑ جزیرہ ابن عمر کے قریب واقع ہے یہ مقام بھی اب ترکی کے حصے میں ہے تاہم عراق کی سرحد سے متصل ہے مسلم سائنسدانوں تاریخ دانوں نے کوہ کرد کو ہی نوح کی کشتی کا ٹھہراؤ کا مقام قرار دیا اس لیے یہ پہاڑ مسلمانوں میں کوہ جودی کے نام سے منشور ہو گیا تاہم عیسائی مبلغین کا کہنا ہے کہ کشتی کو ارارت پر جا کر رکھی تھی یہ پہاڑ آرمینیا اور ترکی کی سرحد پر ہے آرمینیا میں 301 عیسوی میں ہیں عیسائیت کو سرکاری مذہب قرار دیا گیا تھا اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس ملک کی اہمیت بڑھانے کے لئے کوہ ارارات کو نوح کی کشتی کا مقام قرار دیا گیا

اب سائنس دانوں اور ماہرین نے اس کشتی کو اسی مقام پر تلاش کرنے کا دعوہ کیا ہے کوہ جودی وادیاں دجلہ اور فرات کے قریب واقع ہے جب کہ کوہ ارارات اس وادی سے کئی سو میل دور ہے اس لیے اس دعوے میں تھوڑی کنفیوژن پائی جاتی ہے لیکن ہمیں صحیح رہنمائی قرآن کریم ہی سے مل سکتی ہے کہ جس میں حضرت نوح علیہ السلام کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی کے علاوہ شیخ الانبیا کا بھی خطاب عطا ہوا کیوں کہ حضرت آدم علیہ سلام کے بعد وہ پہلے پیغمبر ہے جو انسانیت کی طرف بھیجے گئے

قرآن پاک میں حضرت نوح علیہ السلام کا نام تہتر مرتبہ آیا ہے ان کی عمر نو سو برس کے قریب تھی حضرت نوح علیہ السلام موجودہ عراق میں آباد ایک قوم کے پاس نبی بنا کر بھیجے گئے تھے جب بہت واضح نصیحت کے باوجود بھی قوم نے سرکشی نہ چھوڑیں تو آپ نے اللہ تعالی سے اپنی قوم کے لئے عذاب مانگا اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا دو سال کی مدت میں کشتی تیار ہوئی جس کی لمبائی تین سو گز اور چوڑائی پچاس گز اور اونچائی 30 گز تھی جب عذاب آیا تو آسمان سے مسلسل بارش برسنے لگی اور زمین سے چشمے ابلنے لگے ہر شہر زیرآب آتی چلی گئی

حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی چھ ماہ آٹھ دن پانی میں تیرتی رہیں اور 10 محرم الحرام کو جودی پہاڑ پر جا کر ٹھہر گئی کئی دن تک پانی اترتا رہا اس کے بعد جب خشکی پیدا ہوئی تو حضرت نوح علیہ السلام نے ایک شہر بسایا حضرت نوح علیہ السلام طوفان کے بعد صرف ساٹھ برس زندہ رہے ان کا مزار آج بھی لبنان میں موجود ہیں خواتین و حضرات سائنسی تحقیقات کچھ بھی ہو سائنسدان جو بھی کہتے ہو ہمارا ایمان یہ ہے کہ سب کچھ اللہ ہی بہتر جانتا ہے

جو قرآن و حدیث میں ہمیں بتا دیا گیا ہے جو آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے اللہ کی جانب سے بس وہی سچ ہے ہم انبیاء اور بزرگان دین کہ قسے جو آپ سے شیئر کرتے ہیں تو اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ہم ان لوگوں کی زندگیوں سے کچھ سیکھیں اپنے اعمال و اقوال پر کچھ غور کریں کہ کہیں ہم بھی اپنی زندگی اور سرکش قوموں کی طرح نہیں گزار رہے جن پر اللہ تعالی نے عذاب بھیج دیا تھا تو بہت ضروری ہے کہ جب تک ہمارے پاس مہلت موجود ہے ہم فوری توبہ کریں اپنی زندگیاں جو ہیں اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق ڈھال لے تاکہ ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو ہو جن پر اللہ تعالی کا فضل و انعام نازل ہوا نہ کے ان پر جن پر اللہ تعالی نے اپنا غضب نازل فرمایا

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.