لڑکے اگر شادی کرنے لگے ہیں سہاگ رات سے قبل ناخنوں پر یہ سفید چاند ہے یا نہیں چیک کر لیں ، صدیوں سے بڑھے بوڑھے یہ نشان کیوں چیک کرتے ہیں ؟

بہت سے لوگوں کے ناخن کے نچلے حصے پر سفید رنگ کا نشان ہوتا ہے لیکن کبھی آپ نے غور نہیں کیا ہے کہ آخر یہ کیوں ہوتا ہے اور اس کا کیا مطلب ہے، تو ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ انگلیوں کے اور انگوٹھے کے نچلے حصے پر کیوں ہوتا ہے۔

انگلیوں پر ان سفید نشانات کا سائنسی نام “Lunula Unguis” ہے اور اس کی واضح ، سفید اور صاف شکل میں موجودگی انسان کی اچھی صحت اور مستقل سرگرمی کی جانب اشارہ کرتی ہے جب کہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگرسفید نشان 8 یا 10 انگلیوں پر موجود ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مدافعتی نظام اچھی طرح کام کر رہا ہے اور اگر اس کے مقابلے میں یہ داغ ہلکا اور دھندلی صورت میں ہے تو اس کا مطلب ہے

کہ اس شخص کی صحت اچھی نہیں اور ایسے انسان کو تھکن اور توانائی کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔طبی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بہت سے جسمانی اور نفسیاتی امراض اور غذائی قلت کی صورتوں وغیرہ کا ناخنوں کی شکل، رنگ، حجم اور حالت سے گہرا تعلق ہوتا ہے، اسی لیے ڈاکٹر صحت کی عمومی جانچ کرتے وقت ناخنوں کے معائنہ ضرور کرتے ہیں۔

لاہوری چائے والے کی کہانی….

اس دنیا میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں. ایک وہ جو ہر وقت شکایات کرتے رہتے ہیں اور وسائل نہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں دوسرے وہ جو خود موقع ڈھونڈ کر اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں.

اورینٹ کمپنی ایک بڑی الیکٹرانک کمپنی ہے جس سے ہم سب ہی واقف ہیں.اس کمپنی کے اونر میاں محمد فاضل تھے. ١٩٦٠ کے قریب محمد فاضل جو کہ باؤ فاضل کے نام سے جانے جاتے کہ والد کا لاہور سٹیشن کے پاس چھوٹا سا ڈھابہ تھا.یہ گھرانہ ایک چھوٹے سے مکان میں مقیم تھا.

باؤ فاضل نے چند جماعتیں پڑھی تھیں اس کے بعد وہ بھی والد کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گئے. وہ بھی والد کے ساتھ چائے بنانے میں مدد کرتے اور مسافروں کو پیش کرتے.مسافر انہیں ڈانٹتے تو انہیں بہت تکلف ہوتی. وہ کچھ اور کام کرنا چاہتے تھے .وہ نہیں جانتے تھے کہ انہوں نے کیا کام کرنا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی ہنر نہ تھا مگر انہوں نے آگے بڑھنا تھا.

اس وقت دنیا نے اتنی ترقی نہ کی تھی. باؤ فاضل نے فوٹوگرافی کرنے کا سوچا. وہ لاہور میں ہی ایک جگہ کھڑے ہو جاتے اور سارا دن لوگوں کو تصویر کھچوانے کا کہتے ، رات ہوٹل واپس آ کر وہ ان تصویروں کو دھوتے .

باؤ فاضل نے چھ سال کی طویل مدت تک دل لگا کر یہ کام کیا اور پیسے جمع کرتے رہے.انہوں نے لاہور سٹیشن کے پاس ہی اپنا سٹوڈیو قائم کر لیا.انہوں نے ایک فوٹو کاپی مشین بھی خرید لی تھی. وہ تصویروں کے ساتھ کاغذات بھی فوٹو کاپی کرنے لگے.

باؤ فاضل نے بروقت صحیح جگہ پیسا لگایا تھا اور اللہ کی مدد بھی شامل تھی ان کا کاروبار ترقی کرنے لگا. ان کے بیٹوں نے بھی اس کام میں والد کا ساتھ دیا. انہوں نے کیمروں کی خرید و فروخت بھی شروع کر دی. اس سے ان کو بہت منافع ہونے لگا.کچھ عرصہ بعد انہوں نے کلر فوٹو بنانا بھی شروع کر دیں. یہ وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے تھے. ان کے بیٹے ان کا بھرپور ساتھ دیتے تھے.یہ مشہور کمپنی مٹ سو بیشی سے کیمرہ کی فلمز خریدتے تھے.

مٹ سو بیشی نے باؤ فاضل سے کہا کہ ہماری دوسری چیزیں بھی آپ فروخت کریں. باؤ فاضل نے حامی بھر لی.انہوں نے اس کمپنی کے پانچ سو ایسی منگوا کر بہت کم قیمت بیچے.

اس کام سے ان کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو رہا تھا.ان کو اے سی کی دنیا کا کافی کچھ پتا چل گیا تھا اب انہوں نے اپنے اے سی بنانے کا سوچا.لاہور ہی میں انہوں نے زمیں خریدی اور مٹ سو بیشی کے تعاون سے ایک پلانٹ لگا لیا.اپنی کمپنی کا نام انہوں نے اورینٹ تجویز کیا.

٢٠٠٧ میں یہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے انہوں نے اپنی چیزیں بنا کر بیچنی شروع کر دیں.جن میں اے سی، فریج اور ٹیوی شامل ہیں. آج یہ لوگ پاکستان میں ایک بڑا نام بنا چکے ہیں.

ایک چھوٹے سے مکان میں رہنے والے یہ لوگ آج ایک بڑے سے گھر میں رہتے ہیں مگر اس کے پیچھے باؤ فاضل کی بے انتہا محنت اور سمجھداری شامل ہے

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.