سہاگ رات پہ ایک لڑکی اپنے شوہر سے کیا خواہش رکھتی ہے ؟ لڑکی بتاتی نہیں مگر لڑکوں کو ضرور یہ بات پتہ ہونی چاہئے

شادی کے موقع پر دلہنیں بہت شرماتی ہیں اور چپ ہوکر بیٹھی رہتی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے دل میں کوئی ارمان نہیں اور وہ دولہے سے کچھ کہنا نہیں چاہتیں۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو وہ خاص شادی کے دن کے حوالے سے دولہے سے کہنا چاہتی ہیں لیکن

کہہ نہیں پاتی ہیں۔ متعدد خواتین نے اپنے دل کی آواز قارئین تک پہنچائی ہے تاکہ مرد جان لیں کہ جب وہ دولہا بنتے ہیں تو دلہن ان سے کیا توقع کررہی ہوتی ہے۔ شادی کا دن بہت خاص ہوتا ہے جس کے لئے پہلے ہی بہت انتظار ہوچکا ہوتا ہے لہٰذا مزید انتظار کی گنجائش نہیں ہوتی۔ تو بس بارات لانے میں ہرگز تاخیر نہ کیجئے۔ دراصل دلہن بھاری عروسی لباس پہنے اور بھاری میک اپ کئے منتظر بیٹھی ہوتی ہے۔ اس حال میں اسے مزید انتظار کرنا بالکل اچھا نہیں لگتا۔ کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ درخت کو زور سے سڑک کے کنارے کی طرف دھکیل رہے ہیں لیکن درخت بھاری ہے اور اسے دھکیلنے

والے لوگ کم ہیں۔اس نے دیکھا‘ جوانوں کا سینئر ذرا سا فاصلے پر کھڑا ہے اور یہ وہاں چھڑی لہرا لہرا کر انہیں مزید زور لگانے کی ہدایات دے رہا ہے۔ اس شخص نے اندازا لگایا کہ اگر یہ سینئر بھی ان جوانوں کے ساتھ لگ جائے‘ یہ بھی درخت کو ہٹانے کیلئے زور لگانا شروع کر دے تو درخت چند لمحوں میں سڑک سے کھسک جائے گا۔ وہ شخص گھوڑے سے اترا‘ سینئر کے پاس گیا اور اس سے مخاطب ہو کر بولا ”آپ بھی اگرجونواں کے ساتھ شامل ہو جائیں تو میرا خیال ہے درخت سڑک سے کھسک سکتا ہے‘ سینیئر نے غصے سے اس کی طرف

دیکھا اور بولا ”میں ان کے ساتھ کیسے شامل ہو سکتا ہوں‘ میں سینئر ہوں‘ ان کا چیف ہوں‘ میں جونیئر بن کر اپنے ماتحتوں کے ساتھ کام کیسے کر سکتا ہوں‘ اس شخص نے یہ جوازسنا‘ مسکرایا‘ درخت کے قریب پہنچا اور جوانوں کے ساتھ مل کر درخت کو دھکا دینا شروع کر دیا۔ درخت کھسکا اور دو تین منٹ میں کھائی گر گیا‘ سڑک کلیئر ہو گئی‘اس شخص نے ہاتھ جھاڑے‘ گھوڑے پر بیٹھا‘ سینئر کے قریب آیا‘ اپنی جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکالا‘ سینئر افسر کو

دیا اور کہا میرا نام وینسٹن چرچل ہے۔ میں اس ملک کا وزیراعظم ہوں۔ اگر مستقبل میں تمہارے علاقے میں کبھی کوئی درخت گر گیا تو تم مجھے فون کر دینا‘ مجھے اپنے جونیئرز‘ اپنے ماتحوں کے ساتھ کام کر کے بڑا مزہ آتا ہے روزنامہ دنیا کے مطابق سٹیج ڈرامہ ’’پٹرول پمپ ‘‘میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی مانیٹرنگ رپورٹ پر آرٹس کونسل نے سٹیج اداکارہ آفرین خان کو وارننگ نوٹس جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا کہ سٹیج پرفارمنس کی سی ڈی میں ضابطہ اخلاق کی

خلاف ورزی کا مکمل ریکارڈ موجود ہے آج سے تقریباً چالیس سال پہلے ایک عالم دین چغتائی صاحب جن کا نام میں بھول گیا ہوں جمعہ کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے اپنی تقریر میں

بہاولپور کی مسجد الفردوس (جوکہ مسجد حافظ گھوڑا کے نام سے مشہور ہے) میں سنایا۔ میں پوری ایمانداری سے جو کچھ ان عالم دین چغتائی صاحب نے سنایا تحریر کررہا ہوں۔ یہ مضمون خاص کر ایسے لوگوں کیلئے عبرت ہے جو اپنی دولت‘ سونا وغیرہ کو جمع کرتے ہیں نہ اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں نہ دوسروں پر بلکہ اس دولت پر ناگ بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ اور اسی حالت میں انہیں آجاتی ہے۔ ایک عالم دین نے جمعہ کی

نماز سے پہلے اپنی تقریر میں یہ قصہ سنایا: پاکستان بننے سے پہلے بہاولپور کی ایک مسجد میں امام مسجد قرآن مجید کی تعلیم بھی دیتے تھے‘ امام صاحب بچوں کو قرآن مجید پڑھاکر اور بچوں کو چھٹی دےکر مسجد کے اس کمرے میں چلے جاتے جس میں ان کی رہائش تھی۔ کمرہ اندر سے بند کرلیتے‘ کچھ گھنٹے کے بعد کمرہ کھول کر کاموں میں مصروف ہوجاتے۔ ان کا ایک شریر شاگردلڑکاروزانہ سوچتا کہ آخر استاد جی اپنے کمرے میں کیا کرتے ہیں‘ دیکھنا چاہئے‘ اس لڑکے نے دروازے میں ایک سوراخ کیا‘ ایک دن یہ

لڑکا امام صاحب کے کمرے میں جانے کے بعد اس سوراخ میں سے دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ امام صاحب نے کمرے کی زمین پر سے چٹائی ہٹائی اس کے نیچے گھاس پھونس بھرا تھا انہوں نے اسے بھی ہٹاکر زمین میں سے ایک مٹی کی ہانڈی نکالی اس ہانڈی کو الٹایا تو زمین پر اشرفیوں کا ڈھیر لگ گیا۔ امام صاحب ان اشرفیوں سے کھیلنے لگے جب ان کا

کھیل سے دل بھر گیا تو انہوں نے یہ اشرفیاں واپس ہانڈی میں رکھ کر ہانڈی زمین میں اسی جگہ پر رکھ دی اور اوپر سے گھاس پھونس ڈال کر چٹائی زمین پر بچھادی۔ اب روزانہ یہ لڑکا یہ تماشہ سوراخ میں سے دیکھتا ایک دن امام صاحب کو بخار چڑھ گیا‘ امام صاحب نے ایک لڑکے سے بازار سے مکھن منگوایا اور حسب معمول اپنے کمرے میں جاکر کمرہ بند کرلیا۔ ان کے اسی شاگرد نے سوراخ میں سے دیکھا کہ امام صاحب نے ہانڈی نکالی اور زمین پر اشرفیاں الٹیں۔ اب امام صاحب

نے ایک ایک کرکے اشرفیاں مکھن میں لگاکر سب اشرفیاں کھا گئے کچھ دیر کے بعد کمرے سے باہر آگئے۔ کچھ گھنٹے کے بعد شاید ان اشرفیوں نے اپنا کام دکھایا اور امام صاحب چند گھنٹوں کے بعدفوت ہوگئے۔ محترم حکیم صاحب! اب ہم مسجد کے پچھلی طرف ایک گلی میں چلتے ہیں: مسجد کی پچھلی گلی میں ایک ہندو بنیا رہتا تھا جس کا کاروبار سود کا تھا اس نے بے شمار مسلمانوں کو سود پر رقم دی ہوئی تھی۔ اتفاق سے یہ ہندو بیمار ہوگیا اس ہندو نے اپنے بیٹے کو بلاکر اس سے تمام سودی کھاتے منگوائے‘ لڑکا بہت خوش کہ باپ اپنے آخری وقت میں یہ تمام سودی کھاتے بیٹے کے حوالے کردے گا۔ اس ہندو نے اپنے بیٹے کے ذریعہ

تمام ان مسلمانوں کو بلوایا جب تمام مسلمان جمع ہوگئے تو اس ہندو نے یہ تمام کھاتے آگ کی نذر کردئیے اور ان مسلمانوں کی تمام رقم اصل معہ سود معاف کردی کے بعد ہندو مرگیا۔ ادھر امام صاحب اشرفیاں کھاکر فوت ہوئے اور اُدھر ہندو مسلمانوں کا اصل معہ سود معاف کرکے مرا۔ ادھر امام صاحب کو قبر میں دفنایا ادھر ہندو کو مرگھٹ میں جادیا یہ سب ایک وقت میں ہوا۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.