شادی پر کتنا خرچ ہونا چائیے

ہمارے ہاں شادیاں دو افراد کو ملانے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے کے لیے کی جاتی ہیں اور اکثر ان میں سے کئی ایک کو دلہا دلہن جانتے تک نہیں ہوتے۔’

آج کل پاکستان میں جہاں ملکی تاریخ کی سب سے مہنگی شادیوں میں سے ایک شادی کا چرچا ہے، وہیں سوشل میڈیا پر اس جوڑے کی بات کرنے والے بھی کم نہیں جس نے اپنی شادی پر چند ہزار روپے ہی خرچ کیے۔

شادی سادگی سے ہونی چاہیے یا دھوم دھام سے؟
جب طلحہ بھٹی نامی صارف نے سوشل میڈیا پر اپنی بیوی کے ساتھ اپنی شادی کی تصویر لگائی اور لکھا کہ ‘نہ کوئی ماہیوں، نہ ڈھولکی، نہ مہندی یہاں تک کہ نہ ہی بارات’ ہم نے سادگی سے نکاح کیا اور پھر گھر میں ایک چھوٹا سا فنکشن کیا جس میں دس سے پندرہ رشتے دار شریک ہوئے اور پھر رخصتی ہو گئی۔ اس کے بعد چونکہ ولیمہ سنت ہے اس لیے ہم نے کچھ دیگیں تیار کروا کر غریبوں میں کھانا تقسیم کر دیا‘۔

دوسری جانب اس شادی کا بھی کافی چرچا ہے کہ جس میں لوگ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس پر کتنے کروڑ خرچ کیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر شئیر ہونے والی اس شادی کی تقریب کی تصاویر اور ویڈیوز پر جہاں ایک طرف تنقید کی جا رہی ہے وہیں دوسری جانب کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہر کوئی اپنی استطاعت اور شوق کے مطابق خوشی مناتا ہے۔

‘سجاوٹ، راحت اور کھانے پر بہت پیسہ’
اس مہنگی شادی پر مدعو ایک مہمان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ شادی دو بڑے بزنس گروپس کے بچوں کی تھی، جس میں ’ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی‘۔

جبکہ مہمانوں کی تواضع کے لیے ’کھانے میں درجنوں ڈشز اور طرح طرح کے میٹھے پکوان تھے‘۔ اطلاعات کے مطابق مولانا طارق جمیل نے دلہا دلہن کا نکاح پڑھایا۔

یہی نہیں اطلاعات کے مطابق تقریب میں موسیقی کے لیے گلوکار راحت فتح علی خان کو بھی بلایا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ راحت ویسے تو کسی تقریب میں پرفارم کرنے کے لاکھوں روپے لیتے ہیں لیکن اس کے علاوہ جب انھوں نے اپنی گائیکی کے جوہر دیکھائے تو مہمانوں نے ان پر نوٹوں کی بارش کر دی۔ ’راحت پر نچھاور کیے جانے والا کوئی بھی نوٹ ہزار یا پانچ ہزار سے کم نہیں تھا‘۔

شادی کی دعوت میں شریک مہمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ان کے ہاں ایسی شادی ہوئی ہو۔

’میں نے ان کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی تھی اور اس میں بھی بہت پیسہ لگایا گیا تھا۔‘

جبکہ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ شادی کی تشہیر سوشل میڈیا اور بڑے بڑے جریدوں میں کرنے کے لیے خصوصی طور پر ایسی شخصیات کو بھی بلایا گیا جنھوں نے تصاویر اور ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالیں۔

‘میں نے اپنے والدین کو ایک روپیہ بھی خرچ کرنے نہیں دیا’

دوسری جانب سادگی سے شادی کرنے والے جوڑے طلحہ بھٹی اور کومل نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میری شادی آسان اور سادہ طریقے سے ہو اور مجھے فخر ہے کہ اللہ نے مجھے ایسی بیوی اور والدین سے نوازا ہے جو ایک ہی ذہنیت رکھتے ہیں۔ میں نے شادی پر اپنے والدین کو ایک روپیہ بھی خرچ کرنے نہیں دیا‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ پرآسائش اور مہنگی شادیوں کے خلاف نہیں ہیں اور انسان کو وہی کرنا چاہیے جس میں اسے خوشی ملے۔

’اگر کسی کو اپنے دوستوں اور پیاروں کی بڑی شادی کرنے سے خوشی ملتی ہے تو وہ ضرور کریں۔ لیکن اگر آپ کے بڑی شادی کرنے کے ارادے خوشی کے سوا کچھ اور ہیں تو یہ مایوس کن بات ہے۔ 3-5 دن کی مہنگی شادی لوگوں کو زیادہ دیر یاد نہیں رہے گی بلکہ یہ آپ کے والدین کو قرضوں میں مبتلا کر دے گا‘۔

کومل نے بتایا کہ انھیں ان کی شادی پر ایک دوست نے تیار کیا اور انھوں نے خود اپنی پسند سے ایک سوٹ خرید کر شادی پر پہن لیا۔ ان کے مطابق ’ہم فضول میں اپنے پیسے ان چیزوں پر خرچ کر دیتے ہیں جن سے ہم اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے کام کر سکتے ہیں‘۔

سادگی سے شادی کرنے والے جوڑے نے دیگر نوجوانوں کو بھی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ شادی کو آسان بنائیں۔

’بہت سے نوجوان اس لیے جلدی شادی نہیں کر پاتے ہیں کیونکہ ان کہ پاس شادی کے خرچے پورے کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ اس لیے مہنگی شادیوں کے بجائے شادیوں کو آسان بنائیں تاکہ لوگ حلال کی طرف بڑھیں۔‘

طلحہ کے گھر والوں کے مطابق ’جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس میں دو لوگوں کی شادی ان کی خوشی کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ شادی شاید ان کے خاندان کی خوشی کے لیے بھی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ یہ شادی اس معاشرے کو خوش کرنے کے لیے ہوتی ہے جس سے ان دو لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے جو دلہا دلہن ہیں۔‘

ان کے بھائی حمزہ کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’کھانا کھلانے اور شادی کی تقریب پر بلانے کا دباؤ ایسے ہی ہے جیسے پوری کی پوری دنیا ہی آپ کو جانتی ہو۔ ہمارے ہاں ایک دوسرے کی خوشی کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ اگر آپ لڑکے والے ہیں اور آپ شادی کی مہنگی تقریب کرنے کہ استطاعت رکھتے ہیں۔ اس میں آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ لڑکے والوں کی بڑی تقریب دیکھ کر لڑکی والوں پر کتنا دباؤ ہوگا۔

’جو پیسے شادیوں پر لگائے جاتے ہیں ان میں سے چند فیصد ہی اگر دلہا دلہن کے ہاتھ میں پکڑا دیں اور کہیں کہ ان سے آپ مستقبل میں جو کرنا چاہتے ہیں کریں تو یہ بہت بہتر ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا مریخ پر پہنچ گئی ہیں اور ہم ان ہی باتوں میں پھنسے ہوئے ہیں کہ شادی پر کتنا زیور، کپڑے اور کون سی گاڑی ہونی چاہیے۔ میرے بھائی کی مثال سے ہم یہی امید کر رہے ہیں کہ لوگ ان کو دیکھ کر ہی روایات کو تبدیل کرکے سادگی سے شادی کریں۔‘

،تصویر کا کیپشن بعض صارفین کا کہنا ہے کہ ایسی شادیاں معیشت اور شادیوں سے منسلک کاروبار کے لیے بہتر ہیں
سوشل میڈیا پر ردعمل

بی بی سی کی جانب سے اپنے صارفین سے یہ سوال پوچھا گیا کہ شادی سادگی سے ہونی چاہیے یا دھوم دھام سے اور جب یہ فیصلہ کرنے کا وقت آیا یا آئے تو آپ کیا پسند کریں گے؟

صارفین کی جناب سے مختلف قسم کی آرا کا اظہار کیا گیا۔ جس کے مطابق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شادی خوشی کا موقع ہوتا ہے اس لیے اسے دھوم دھام سے منایا جانا چاہیے۔ جبکہ بیشتر صارفین کا کہنا تھا کہ ہمیں سادگی سے شادی کرنی چاہیے۔

سلمہ منصوری نے بی بی سی کو بھیجے ایک پیغام میں کہا کہ خوشیاں منانے کا حق سب کو ہے اور سب اپنی حیثیت کے مطابق ان خوشیوں کو مناتے ہیں۔ ’لیکن میں سمجھتی ہوں کہ جو لوگ مہنگی شادیوں کا رواج قائم کرتے ہیں وہ مناسب نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ دنیا کو دکھانے کے لیے یہ سب کرتے ہیں۔‘

سیدہ ماہین نے اپنے فیس بک اکاونٹ پر لکھا کہ ’ہمیں اپنے معاشرے میں سادگی سے نکاح کرنے کا رواج پیدا کرنا ہو گا جو سب کے لیے قابل برداشت ہو‘۔ جبکہ طاہر شہزاد کہتے ہیں کہ ’شادی سادگی سے ہونی چاہیے لیکن معاشرتی دباؤ میں یہ کیسے ممکن ہے‘۔

دوسری جانب مہنگی شادی پر تبصرہ کرتے ہوئے ارم صدیقی کا کہنا تھا کہ جس شادی میں نمائش ہو اور لوگوں میں احساس کمتری پیدا ہو وہ شادی معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ ’اگر آپ کے پاس پیسہ ہے بھی تو بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘

جبکہ سفیان خلیل کے مطابق مہنگی شادیاں ہماری معیشت اور شادیوں سے منسلک کاروبار کے لیے بہتر ہیں اور لوگوں کو اسے تہوار کی طرح منانا چاہیے۔

شادی پر نہ بلانے پر کیا رشتےدار، دوست ناراض نہیں ہوئے؟

یہ سوال بہت سے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے طلحہ اور کومل سے پوچھا جا رہا ہے۔ جس کے جواب میں طلحہ اور کومل کا کہنا ہے کہ ان کے رشتےدار بھی عام لوگوں کی طرح یہ امید کر رہے تھے کہ کیونکہ نکاح سادگی سے ہو گیا ہے تو اب ولیمے کی دعوت ضرور دی جائے گی۔ ’لیکن اس پر ہم نے سوچا کہ وہ لوگ جن کے پیٹ پہلے ہی بھرے ہوئے ہیں ان کو بلا کر کھانا کھلانے سے بہتر ہے کہ ان کو کھلایا جائے جن کے پیٹ خالی ہیں‘۔

’ہم سے پوچھا گیا کہ ولیمہ کب ہے لیکن ہم نے بتا دیا کہ ہم نے سنت پوری کر دی ہے اور ہم اس سے خوش ہیں

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.