اللہ پاک کا پسندیدہ لفظ یاد کر لو ہر دعا ایک سیکنڈ میں قبول ہوگی ، انشا اللہ

یہ دنیا دارالسباب ہے اور انسان کے اللہ تعالیٰ کے اسباب کا محتاج بنا یا گیا ہے۔ انسانی زندگی کو اللہ تعالیٰ نےاسباب کے ساتھ جوڑا ہے اور اگر اسباب ختم ہو جائیں تو انسان کی زندگی ختم ہو جائے۔ جہاں انسان مادی اسباب کا محتاج ہے وہیں پر انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف رشتے بنائے ہیں۔ جن کے بیچ انسان اپنی ساری زندگی گزارتا ہے۔ ایک بچے کے لیے اس کے والدین ہی سب کچھ ہوتے ہیں اور وہ ہر خواہش کی تکمیل کے لیے وہ اپنے والدین پر بھروسہ رکھتا ہے کہ اس کے والدین اس کی ہر خواہش پوری کر یں گے۔ اور یہی حال بڑوں کا بھی ہے کہ جب بھی کوئی کام ہوتا ہے تو نظر اسباب پر جاتی ہے لیکن جب انسان کی آ س ہر طرف سے ٹوٹتی ہے اور انسان کو کچھ بھی نظر نہیں آتا تو انسان کو صرف اللہ کی ذات نظر آ تی ہے

اور پھر انسان کے پاس ایک ہی ذریعہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ ذریعہ ہے دعا۔ دعا اللہ کی جانب سے اپنے بندوں کے لیے ایک ایسا عجیب تحفہ ہے جس کا ثانی کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ دعا اللہ تعالیٰ سے ما نگنے کا ذریعہ ہے اور دعا ایک ایسی مبارک چیز ہے جس کے لیے اللہ نے کوئی خاص وقت نہیں رکھا۔ انسان جب بھی چاہے۔ اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے اور جو بھی ما نگنا چاہے۔ ما نگ لے۔ دعا کی قبولیت کے لیے مختلف روایات موجود ہیں لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسا لفظ بتانے والے ہیں کہ جس کو اگر دعا سے پہلے پڑھ لیا جائے تو اللہ پاک ہر صورت انسان کی دعا قبول فر ماتے ہیں۔ وہ لفظ کیا ہے اور دعا کی قبولیت میں اس کو کیا خاصیت حاصل ہے۔ دوستو ہم آپ کو آج کے ٹاپک کے بارے میں تفصیل سے بتا ئیں گے۔

دوستو ہر کوئی یہ چا ہتا ہے کہ اس کی دعا جلد قبول ہو لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دعا بندے کی طرف سے اللہ کے حضور ایک التجا ہے ۔ وہ بندے کی التجا دیر سے بھی مکمل کر سکتے ہیں اور جلدی بھی۔ دیر ضرور ہی اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلیحت ہو تی ہے اور جلدی میں بھی اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلیحت ہو تی ہے۔ بندہ تنگ دل ہو کر دعا ما نگنا چھوڑ دیتا ہے۔ جو کہ غلطی ہے۔ بس بندہ کو چاہیے کہ اس در کا فقیر بنا رہے اور بر ابر ما نگتا رہے تو رحمتِ خداوندی دیر سویر ضرور متوجہ ہوگی اور یقین رکھیں کہ قبولیت کی تاخیر میں ضرور کوئی نہ کوئی مصلیحت ہے۔

جیسا کہ آپﷺ نے فر ما یا کہ تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک کہ وہ جلدی نہ مچائے۔ اور جلدی مچا تا یہ ہے کہ کہے میں نے دعا کی مگر وہ قبول نہ ہوئی۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ وہ کہے کہ میں نے دعا کی یعنی دعا بار بار کی پھر میں نے دیکھا کہ میری دعا قبول نہیں ہو رہی چنا نچہ اس نے تھک کر دعا کرنا چھوڑ دی ۔ تو دوستو انسان کو مکمل یقین ، پختہ یقین کےساتھ ہمیشہ دعا کرنی چاہیے۔ اور یہ شکوہ کبھی نہیں کر نا چاہیے کہ میں نے دعا کی مگر وہ دعا قبول نہ ہوئی۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.