جوشخص یہ پانچ کام کرلے گا اسکا رزق کبھی کم نہیں ہوگا

رزق اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت جس کی تقسیم کااختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے ایک منظم ضابطے کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کو اپنے وقت پر رزق پہنچاتا ہے چاہے وہ زمین پر چلنے اور رینگنے والے جاندار ہوں یا سمند ر کی تاریکیوں بسنے والے جاندار ہوں یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر رہنے جاندار اللہ تعالیٰ کسی نہیں بھولتا جیسے سورۃ ہود میں ارشاد باری تعالیٰ زمین پر کوئی ایسا جاندار نہیں ہے جس کا رزق اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ نہ لے رکھا ہو ۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر لطف وکرم فرمانے والا ہے اور وہ جسے چاہتا رزق دیتا ہے چنانچہ اگر کسی کو روزی کم ملےاور سرے سے نہ ہی ملے تو اس کو اس آیت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ رزق کم ملنے یا بلکل نہ ملنے میں اس کا کرم اور کو ئی حکمت پوشیدہ ہے اور رزق میں جو کمی بیشی ہوتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتی ہے جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ بے شک تمہارا رب جسے چاہے رزق کشادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم دیتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا اور ان کے احوال کو دیکھتا ہے ۔

مگر یہ بات یہاں یاد رہے کہ رزق میں کمی نہ تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی دلیل ہے اور نہ تو رزق میں زیادتی اللہ تعالیٰ کی رضا کی دلیل ہے بلکہ یہ تو امتحان اور آزمائش کے طور پر ہوتا ہے ۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ گنہگار کے رزق میں وسعت ہوتی ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے نیک وفرمانبردار کے رزق میں تنگی بھی ہوتی ہے ۔

ان قرآنی آیات میں روشنی جان لینے کے بعد رزق میں خوشحالی اور تنگی لانے کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کے سوا اور کوئی نہیں ۔ ان پانچ چیزوں میں سے پہلی چیز ہے تقویٰ اختیار کرنا یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا تقویٰ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل اور شرعاً ممنوع چیزوں سے اجتناب کا نام ہے ۔ تقویٰ ان امور سے ایک ہے جن سے رزق میں برکت ہوتی ہے ۔

جیسے سورۃ طلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کیلئے راہ نکال لے گا اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔ اسی طرح سورۃ الاحرا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا اسی لیے ہم نے ان کی کمائی کی پاداش میں انہیں پکڑلیا برکت کا مطلب دولت کی کثرت نہیں بلکہ کفایت ہے یعنی ضرورت کے وقت کافی ہوجانا ہے۔

بہت سے لوگ کثرت مال کے باوجود معاشی تنگی کا رونہ روتے رہتے ہیں اور معاشی طور پر بظاہر درمیانے درجے کے متعدد لوگ انتہائی اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں یہ فرق صرف برکت کی وجہ سے ہے دوسری چیز ہے عبادت میں انحماق اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے دوران بندے کا دل اور جسم دونوں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور میں خشووخضو کا پاس رکھے اللہ تعالیٰ کی عظمت ہمیشہ اسکے دل ودماغ میں حاضر ہے

۔حدیث مبارکہ میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ابن عادم ؑ میری عبادت میں منہمک رہو میں تیرے دل غناء سے بھر دوں گا اور تمہاری محتاجی کا دروازہ بند کروں گا اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تمہارے ہاتھوں کو کثرت مشاغل سے بھردوں گا اور تمہاری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔ تیسری چیز ہے کہ توبہ واستغفار قرآن میں کئی جگہ توبہ واستغفار کے ذریعے رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا ذکر ہے ۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.