اللہ کے نبی ﷺ کے صحابی کی دجال سے ملاقات کا قصہ، دجال نے صحابی رسول ﷺ سے کون سے سوالات کیے جس کے بعد کہا اب میری آزادی کا وقت قریب ہے

حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کو سنا وہ اعلان کررہا تھا “الصلاۃْ جامعہ” میں نماز کے لیے نکلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مردوں کے پیچھے عورتوں کی صف اول میں ظہرکی نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر منبر پر بیٹھے ، آپ کے چہرے پر اس وقت مسکراہٹ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر شخص اپنی اپنی جگہ بیٹھا رہے، اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو میں نے تم کو کیوں جمع کیا ہے؟

صحابہ نے عرض کیا:اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخدا میں نے تم کو نہ تو مال وغیرہ کی تقسیم کے لیے جمع کیا ہے نہ کسی جہاد کی تیاری کے لیے، بس صرف اس بات کے لیے جمع کیا ہے کہ تمیم داری پہلے نصرانی تھا وہ آیا اور مسلمان ہوگیا اور مجھ سے ایک قصہ بیان کرتا ہے ،جس سے تم کو میرے اس بیان کی تصدیق ہوجائے گی جو میں نے کبھی دجال کے متعلق تمہارے سامنے ذکر کیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ایک بڑی کشتی میں سوار ہوا جس پر سمندروں میں سفر کیا جاتا ہے ان کے ساتھ قبیلہ لخم اور جذام کے 30 لوگ بھی تھے، یہ ایک ماہ تک سمندری طوفان میں پھنسے رہے آخر مغربی جانب ان کو ایک جزیرہ نظر آیا جس کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر اس جزیرے پر اتر گئے۔ سامنے ان کی نظر جانور کی شکل کی ایک چیز پر پڑی جس کے پورے جسم پر بال ہی بال تھے کہ ان میں اس کے اعضائے مستورہ تک کچھ نظر نہ آتے تھے۔ لوگوں نے اس سے کہا کمبخت تو کیا بلا ہے؟ وہ بولی میں جساسہ ہوں چلو اس گرجے میں، وہاں ایک شخص ہے جو تمہاری خبروں کا مشتاق ہے، یہ کہتے ہیں کہ جب اس نے ایک آدمی کا ذکر کیا تو اب ہم کو ڈر لگا کہ کہیں وہ کوئی جن نہ ہو۔ ہم لپک کر گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک بڑا قوی ہیکل شخص دیکھا کہ اس سے پہلے ہم نے ویسا کوئی شخص نہیں دیکھا تھا۔ اس کے ہاتھ گردن سے ملاکر اور اس کے پیر گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے نہایت مضبوطی سے جکڑے ہوئے تھے۔

ہم نے کہا: تیرا ناس ہو تُو کون ہے؟ وہ بولا تم کو میرے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا لگ ہی گیا ہے، اب تم بتاؤ تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا: ہم عرب کے باشندے ہیں ہم ایک بڑی کشتی میں سفر کررہے تھے، سمندر میں طوفان آیا اور ایک ماہ تک رہا۔ اس کے بعد ہم اس جزیرے میں آئے تو یہاں ہمیں ایک جانور ملا، جس کے تمام جسم پر بال ہی بال تھے اس نے کہا میں جساسہ ہوں، چلو اس شخص کی طرف جو اس گرجے میں ہے، اس لیے ہم جلدی جلدی تیرے پاس آگئے، اس نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ بیسان کی کھجوروں میں پھل آتا ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا ہاں آتا ہے۔ اس نے کہا وہ وقت قریب ہے جب اس میں پھل نہ آئے۔ پھر اس نے پوچھا اچھا بُحیرۂ طبریہ کے متعلق بتاؤ اس میں پانی ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا بہت ہے۔ اس نے کہا وہ زمانہ قریب ہے جب اس میں پانی نہ رہے گا۔ پھر اس نے پوچھا زْغَر کے چشمے کے متعلق بتاؤ، اس میں پانی ہے یا نہیں اور اْس بستی والے اپنے کھیتوں کو اس کا پانی دیتے ہیں یا نہیں؟ ہم نے کہا اس میں بھی پانی بہت ہے اور بستی والے اسی کے پانی سے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔

پھر اس نے کہا اچھا نبی الامین کا کچھ حال سناؤ ہم نے کہا وہ مکے سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے ہیں۔ اس نے پوچھا کیا عرب کے لوگوں نے ان کے ساتھ جنگ کی ہے؟ ہم نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا اچھا پھر کیا نتیجہ رہا؟ ہم نے بتایا کہ وہ اپنے گرد ونواح پر تو غالب آچکے ہیں اور لوگ ان کی اطاعت قبول کرچکے ہیں۔ اس نے کہا سن لو: ان کے حق میں یہی بہتر تھا کہ ان کی اطاعت کرلیں۔ اور اب میں تم کو اپنے متعلق بتاتا ہوں، میں مسیح دجال ہوں اور وہ وقت قریب ہے جب مجھ کو یہاں سے باہر نکلنے کی اجازت مل جائے گی۔ میں باہر نکل کر تمام زمین میں گھوم جاؤں گا اور چالیس دن کے اندر اندر کوئی بستی ایسی نہ رہ جائے گی جس میں داخل نہ ہوں، بجز مکہ اور طیبہ کے کہ ان دونوں مقامات میں میرا داخلہ ممنوع ہے۔ جب ان دونوں میں سے کسی بستی میں داخل ہونے کا ارادہ کروں گا تو اس وقت ایک فرشتہ ہاتھ میں ننگی تلوار لیے سامنے آکر مجھے داخل ہونے سے روک دے گا اور ان مقامات کے جتنے راستے ہیں ان سب پر فرشتے ہوں گے جو ان کی حفاظت کررہے ہوں گے۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.