سوزشِ رحم یعنی بچہ دانی کی سوزش

جوان اور شادی شدہ خواتین میں رحم کی سوزش یا بچہ دانی کی سوزش اور اینڈومیٹریوسس ایسا مرض ہے جو نہ صرف عورت کی جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ نفسانی جذبات کو بری طرح مجروح کرتا ہے۔ اس مرض میں بچہ دانی کی اندرونی غشاؤں یعنی اینڈرومیٹریم کی تہوں کے خلیات یعنی اینڈومیٹریل سیلز میں سوزش ہوجاتی ہے اور یہ خلیات ہر ماہ

حیض کے دوران بچہ دانی کی اینڈومیٹریم سے علیحدہ ہوتے رہتے ہیں۔بچہ دانی کی اینڈومیٹریم سے اترنے والے یہ خلیات دورانِ حیض خون کے زائد دباؤ کی وجہ سے مہبلی رکاوٹ کے باعث بچہ دانی سے خارج ہونے کے بجائے قاذف نالیوں یعنی فلوپین ٹیوبوں

کے راستے پیٹ میں پہنچ جاتے ہیں یہاں یہ باریطون پر اور بچہ دانی کے اطراف نزدیکی اعضاء پر چمٹ جاتے ہیں۔ اندرونی اعضاء پر چپکے ہوئے یہ خلیات جنسی ہارمونوں کے زیر اثر اینڈومیٹریم کی طرح ہی اپنے مخصوص افرازی فعل سرانجام دیتے رہتے ہیں

اور تقسیمی عمل کے ذریعے اپنی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے پیٹ میں موجود اعضاء پر پھیلتے رہتے ہیں۔چونکہ یہ مرض صرف بچہ دانی تک محدود نہیں رہتا بلکہ پیٹ میں قریب کے دوسرے اعضاء اس کی گرفت میں آجاتے ہیں اور ناف سے نیچے دونوں

اطراف میں موجود اعضاء پر اینڈومیٹریل سیلز پھیل جاتے ہیں اس لیے ان بیمار خلیات کے پھیلاؤ کی وجہ سے اس مرض کو اینڈومیٹریوسس کہاجاتا ہے۔ ایک بار اینڈومیٹریم کے خلیات پیٹ میں داخل ہوجائیں تو انھیں پھیلنے سے روکنا آسان نہیں ہے۔ اسی لیے جو خواتین ایک بارا س مرض میں مبتلا ہوجائیں ان میں مرض بتدریج بڑھتا ہی چلاجاتا ہے۔ مریض خواتین

متاثرہ اعضاء اور شدت مرض کے مطابق مختلف علامات بتاتی ہیں۔ عام علامات میں کمر کے دردکے ساتھ حیض کا اخراج، ہم بستری کے دوران یا بعد میں درد اور بے اولادی شامل ہیں۔ اس مرض میں مبتلا خواتین کمردرد،سردرد،متلی و قے، بلڈ پریشر،تھکاوٹ اور بے چینی وغیرہ کے علاوہ جنسی کمزوری یا حیض کی مقدار اور دورانیوں میں بے ربطی کی شکایت کرتی ہیں۔

شدید علامات میں پیٹ کے نچلے حصے میں بچہ دانی کو مسلتے اور کوٹتے ہوئے چبھن دار درد کبھی پیٹ کے ایک حصے میں یاسارے پیٹ میں یا ریڑھ کی ہڈی تک چلاجاتا ہے اور کبھی مقعد سے رانوں کی طرف پھیلتا ہے،جس کے باعث بعض خواتین ٹانگوں میں اکڑن محسوس کرتی ہیں۔ کئی خواتین کو متلی، قے اور اسہال بھی ہوتے رہتے ہیں۔ حیض شرو ع ہونے سے پہلے

درد میں شدت ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ کم ہوکر بالکل ختم ہوجاتا ہے۔مزمن یا کرانک مرض کی صورت میں درد کم وبیش دوروں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ اینڈومیٹر یوسس کا پھیلاؤ جس عضو تک پہنچ جائے اس کے مطابق علامات ظاہرہوتی رہتی ہیں۔ مثال کے طورپر مثانہ تک مرض کے پھیلاؤ سے پیشاب کی حاجت اور اخراج کے ساتھ درد اور کبھی پیشاب میں خون کی آمیزش ہوجاتی ہے۔

اسہال کی صورت میں مرض مقعد اور بڑی آنت تک پھیل جاتا ہے۔ مریض خواتین تھکن میں مبتلا،چڑچڑی اور شوہروں سے بیزار رہتی ہیں۔ تاہم ہر مریضہ مختلف علامت کی شکایت کرتی ہے۔ جدید طبی سہولیات یا ایلو پیتھک سسٹم میں اینڈومیٹریوسس کے مرض میں مبتلا خواتین کا علاج تین طریقوں سے کیا جاتا ہے۔۱۔درد کم کرنے والی ادویات کا استعمال۲۔ہارمونز کا استعما۳۔آپریشن

کے ذریعے بچہ دانی یا کبھی بچہ دانی کو بیضہ دانیوں سمیت نکال دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اعضاء پر چپکے ہوئے خلیات کی تہوں کوممکنہ حدتک اُتار کر نکال دیاجاتا ہے۔ اصولِ علاج علاج کا جو بھی طریقہ اپنایا جائے مریضہ کی عمر،مرض کی علامات، اس کی صحت، اور اولاد کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی برداشت کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔

علاج کے نتائج کا دارومدار درست فیصلہ کرنے پر منحصر ہے۔ ہر طریقہ علاج سے علامات خصوصاً درد کی شدت میں کمی آجانے کے بعد دوبارہ سے درد شروع ہوجانے کے امکانات برقرار رہتے ہیں۔ بے اولاد خواتین کے لیے اولاد کا حصول نہایت اہم ہے۔ اس

لیے علاج کا ایسا طریقہ اپنایا جائے جس سے اولاد حاصل کرنے میں رکاوٹ کے امکانات کم سے کم ہوں اور انھیں اولاد کے قابل بنانے کی کوشش کی جائے۔کسی بھی دوائی طریقہ علاج سے مرض پر قابو نہ پایا جاسکے تو آپریشن کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.